چلاس کی محبتیں

Written By Happy Prince on Tuesday, 31 May 2011 | 08:58

چلاس کی محبتیں


جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے پچھلی باتیں بڑی شدت، صفائی اور جزویات کے ساتھ یاد آتی چلی جا رہی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان میں کوئی ایسی ناخوشگوار بات نہیں ہے صرف اس بات کا ان یادوں میں ضرور احساس پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ اور وہ زمانے جس میں شفقت و محبت اور انس زیادہ تھا وہ کہاں چلے گۓ اور ہم اس قدرکیوں مصروف ہو گۓ۔ اس میں ہماری کوئی خرابی نہیں ہے بلکہ سارا چکر مصروفیات کا ہے اور ہماری مصروفیات کا عالم ایسا ہے کہ ہم ان شفقتوں سے کٹ گۓ جو محبتیں خدا نے ہمیں عطا کی تھیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ شقیق قلوب جو ہیں انہوں نے کتاب سے پڑھ کر شفقت حاصل نہیں کی تھی یا کسی سے سیکھ کر محبت کا علم نہیں پایا تھا بلکہ اللہ نے وہ دل ہی ایسے پیدا کیے تھے کہ ان کے اندر محبت و شفقت بھری ہوئی تھی اور وہ جو بھی کام کرتے تھے ان میں لوگوں کے لیے بے شمار آسانیاں ہوتی تھیں۔ بہت دیر کی بات ہے ہماری ایک سوسائٹی تھی جو کافی دیر تک چلتی رہی اس کا نام “چھڈ یار“ تھا۔ اس میں ہم سات ممبر تھے۔ پہلے میں شامل افراد صرف ریڈیو سے متعلق تھے پھر ٹیلی ویژن سے بھی آ کر شامل ہو گۓ۔ اس سوسائٹی کے چیئرمین ممتاز مفتی تھے جبکہ ہمارے لیڈر عمر بقری تھے۔ اس چھوٹی سی انجمن کا نام ہم نے “چھڈ یار“ یہ سوچ کر رکھا کہ دفعہ کرو دنیا کے جھگڑے جیہڑے، چھڈ یار ان کو اور اٹھ کھڑا ہو، نکل پڑ کیونکہ یہ تو ساتھ ہی چمٹے رہیں گے۔ چنانچہ ایک تاریخ مقرر کر دی جاتی تھی اور اس میں چھڈ یار کا لیڈر اعلان کر دیتا تھا کہ “چھڈ یار“ نے ١٣ تاریخ کو “اٹھ یار“ میں تبدیل ہو جانا ہے۔ اس مقرر کردہ تاریخ کو ہم اپنے سلیپیگ بیگ اور اپنے ساتھ مکھن، سیب اور ڈبل روٹی وغیرہ لے کر نکل پڑتے تھے اور ہماری منزل ناردرن ایریاز یعنی شمالی علاقہ جات ہوتا تھا۔ وہ دنیا کا خوب صورت ترین علاقہ ہے۔ یہ بات میں اس لیے نہیں کہتا کہ میں پاکستانی ہوں بلکہ اس سے زیادہ خوب صورت علاقے میں نے امریکہ اور انگلستان میں بھی نہیں دیکھے۔ خدا نے جانے کس طرح سے ان حسین وادیوں کو ترتیب دیا اور بنایا ہے۔ ایک طرف راکاپوشی پہاڑ سینہ تانے کھڑا نظر آتا ہے تو دوسری طرف ناگا پربت کھڑا ہے۔

ایک بار جب ہم علاقے میں گۓ اور ایک جگہ چاۓ پینے کے لیے رکے تو وہاں اڑھائی سو جرمن مرد، عورتیں اور ان کے بچے چارپائیاں کراۓ پر لے کر بیٹھے ہوۓ تھے اور کسی سے بات نہیں کرتے تھے۔ وہاں اس بس اڈے پر لوگوں نے بتایا کہ یہ ناگا پربت دیکھنے آئے ہیں۔ ناگا پربت کا حسن لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ جرمن سیاح تین روز سے چارپائیاں کرایہ پر لیے بیٹھے تھے اور اپنے سامنے ناگا پربت کو مسلسل دیکھ رہے تھے۔ نہ کھانا کھایا، نہ لیٹے بس چاۓ کی ایک ایک پیالی پی اور خدا کی عظیم قدرت کا نظارہ کرتے رہے۔ ہم وہاں یہ ضرور سوچتے تھے کہ خدا ہمیں بھی یہ توفیق عطا فرماۓ کہ ہم اپنی چیزوں کو پسند کر سکیں اور ان کے قریب آ سکیں۔ ہم شاہراہِ ریشم پر چل رہے تھے اور ہمیں شام پانچ چھ بجے کے قریب چلاس پہنچنا تھا۔ چلاس پہاڑی علاقہ ہے اور کافی اونچائی پر ہے۔ یہ خوب صورت علاقہ ہے اور اس کے پہاڑوں کے شگافوں میں ایک سیاہ رنگ کی دوائی "سلاجیت" پیدا ہوتی ہے وہ بہت قیمتی ہوتی ہے۔ ہمارے لیڈر نے وہاں رکنے کا بندوبست کیا تھا اور وہاں ایک سکول ماسٹر کے گھر پر ہمارے ٹھہرنے کا انتظام تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو شام پانچ کی بجاۓ ہمیں رات کے دس بج گۓ۔ اس دیر کی بابت ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اتنی رات کو کسی کے گھر جانا برا لگتا ہے چنانچہ ایک صاف سے پہاڑ پر جس پر ایک عدد سرکاری بتی بھی لگی تھی ہم اپنے بستر کھول کر اس بتی کے نیچے بیٹھ گۓ۔ بڑی مزیدار ہوا چل رہی تھی۔ وہاں قریب ہی پانی کا ایک نل تھا جو کسی بہت ہی خوشگوار چشمے کے ساتھ وابستہ تھا۔

ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک بہت خوفناک طوفان چلنے لگا۔ تیز ہوا کے اس طوفان سے عجیب طرح کا ڈر لگ رہا تھا۔ اس تیز ہوا کے سبب ریت بھی اڑنے لگی۔ جن لوگوں نے چلاس دیکھا ہے انہیں پتہ ہو گا کہ وہاں اگر تقریباً دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کریں تو ریگستان شروع ہو جاتا ہے اور پہاڑوں پر چلتے ہوۓ اچانک حد نگاہ تک ریت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس تیز طوفان کے ساتھ ہی تیز بارش بھی ہونے لگی اور اولے بھی پڑنے لگے۔ ہمارے پاس Protectionکے لیے کوئی چیز یا جگہ نہ تھی۔ اس موقع پر ہمارے لیڈر عمر بقری مرحوم نے کہا کہ ماسٹر صاحب کے گھر چلنا چاہیے۔ خیر ہم نے اس اندھیرے اور طوفان میں آخر کار گھر تلاش کر ہی لیا۔ جب وہاں پہنچے تو ماسٹر صاحب پریشان کھڑے تھے اور ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کسی کے سوئم پر گۓ تھے لیکن اپنی بیوی کو اشارہ دے کر گۓ تھے کہ میرے دوست آئیں گے۔ ان ماسٹر صاحب کی بیوی بھی ایک سکول ٹیچر تھی۔ جب ہم وہاں بیٹھے باتیں واتیں کر رہے تھے تو وہاں اس سخت باد و باراں میں ایک دس بارہ برس کا لڑکا جس کا نام عبدالمجید تھا وہ اپنی بیساکھی ٹیکتا ہوا آیا۔ وہ بے چارہ ٹانگ سے معذور تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو استانی صاحبہ نے دروازہ کھولا اور اس نے کہا کہ میرے ابا جی نے کہا ہے کہ ماسٹر صاحب آج قریب کے گاؤں میں گۓ ہوۓ ہیں اور تو آپا جی کی خبر لے کر آ کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہیں کہ نہیں۔ انہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ اس دوران بارش مزید تیز ہونے لگی اور ژالہ باری بھی تیز ہو گئی۔ وہ لڑکا ڈر گیا اور کہنے لگا کہ آپا جی آپ کو ڈر لگتا ہے تو میں درمیان میں حماقت یا اپنے علم کا اظہار کرنے کے لیے بول پڑا کہ اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے؟ یہ تو موسم ہے لیکن آپا جی کہنے لگیں کہ ہاں مجھے ڈر لگتا ہے اور بالکل ایسے ہی ڈرتی ہوں جیسے تم ڈرتے ہو لیکن جب مرد گھر میں ہوں تو پھر مجھے ڈر نہیں لگتا (اس زمانے میں شاید تحریک نسواں نہیں چلی تھی اور مرد عورتوں میں کافی اچھے تعلقات تھے) مجھے ان کی بات سن کر شرمندگی کا احساس ہوا کہ یا اللہ میں نے یہ کیا بات کر دی۔ میں اب محسوس کرتا ہوں کہ اس آپا جی نے اتنی سی بات کر کے اس معذور لڑکے کو ایک پوری شخصیت عطا کر دی تھی اور وہ تگڑا ہو کے کہنے لگا اچھا جی میں اب جاتا ہوں اور اپنے ابا جی کو جا کے بتاتا ہوں کہ وہ خیریت سے ہیں۔

خواتین و حضرات! جی چاہتا ہے کہ کاش میرا دل بھی ایک دن یا ایک ہفتے کے لیے ویسا ہو جاۓ جیسا آپا جی کا تھا لیکن ہوتا نہیں ہے۔ میں زور لگا کر زبردستی شرافت اختیار کر سکتا ہوں لیکن جو پیدائشی اور جبلی شرافت میرے پاس نہیں ہے۔ جب ہم اگلے دن سفر کر رہے تھے تو میں اپنے بچپن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جب میں پانچ چھ برس کا تھا۔ اس وقت میری ماں نے اپنی سہیلیوں کی دعوت کی تھی۔ یہ غالباً 1930ء کی بات ہے۔ میری ماں نے اپنی سہیلیوں کے لیے مراد آباد کے برتنوں میں کھانا لگایا۔ پھول وغیرہ بھی لگاۓ۔ جب میں نے اپنی ماں کا اتنا اہتمام دیکھا تو میں نے سوچا کہ مجھے بھی اس میں حصہ بٹانا چاہیے۔ میرے پاس ایک طوطا تھا جس طرح کا سڑکوں پر نجومیوں نے کارڈ نکالنے کے لیے رکھا ہوتا ہے۔ اس کا رنگ اصلی طوطے کا تھا لیکن وہ گتے کا بنا ہوا تھا اور اس کے اندر لکڑی کا برادہ بھرا ہوا تھا۔ وہ طوطا دو آنے کا ملتا تھا اور اس کے ساتھ ربڑ کا دھاگہ بندھا ہوا ہوتا تھا۔ میں نے وہ طوطا لا کر وہاں رکھ دیا جہاں ماں نے تزئین و آرائش کی ہوئی تھی اور جہاں کھانے کا انتظام تھا اگر شاید آج کی سمجھدار ماں ہوتی تو اس بھدے سے طوطے کو اٹھا کر پھینک دیتی اور کہتی کہ تم کیا بدتمیزی کر رہے ہو لیکن وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔ وہ صرف ماں تھی اسے مامتا کے سوا اور کچھ نہیں آتا تھا۔ اس نے ایک رکابی کو اوندھا کر کے اس کے اوپر طوطا رکھ دیا اور جب ان کی سہیلیاں آئیں تو وہ انہیں بتانے لگیں کہ بھئ یہ طوطا اشفاق کا ہے جو اس نے خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ ان کی سہیلیوں نے بھی اس کی تعریف کی۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد مجھے خیال آتا ہے کہ وہ Gracious Hearted شفیق دل ان لوگوں کو کیسے مل جاتے تھے۔ میری یہ بڑی حسرت ہے کہ ایسا دل چاہے چند روز کے لیے ہی سہی مجھے بھی مل جاۓ۔

جب میں اٹلی میں تھا تو میرے ایک دوست بالدی کا بھتیجا تھا اسے کچھ Tonsillitis کی مشکل آئی اور اس کا ایک پیچیدہ سا آپریشن تھا۔ اسے ہم ہاسپٹل لے گۓ۔ میرے ان کے ساتھ فیملی فرینڈ شپ اور گہرے تعلقات تھے وہ لڑکا بھی کہنے لگا کہ یہ (اشفاق احمد) بھی ساتھ جائیں۔ اس لڑکے کے پاس ایک بھالو تھا وہ اس نے ساتھ پکڑا ہوا تھا۔ اس کا باپ کہنے لگا کہ یہ اس بھالو کو چھوڑتا نہیں ہے۔ میں کسی طریقے سے اس کو اس سے الگ کرتا ہوں۔ وہ کوشش کرتا رہا لیکن اس نے اسے نہ چھوڑا۔ خواتین و حضرات اس لڑکے کا بھالو کانا تھا۔ ایک آنکھ کا بٹن کہیں گر گیا ہو گا۔ جب اس کو آپریشن کے لیے ٹیبیل پر لٹایا گیا تو نرس نے اس سے کہا کہ یہ بھالو مجھے دے دو لیکن اس نے دینے سے انکار کر دیا۔ اب Anesthetist بھی پریشان تھا جس نے اسے بے ہوشی کی دوا دینی تھی اور اس کے بعد سرجن نے آنا تھا۔ ہم سب پریشان کھڑے تھے کہ سرجن آ گیا۔ اس نے دیکھتے ہی صورتِ حال کو بھانپ لیا اور کہا کہ اچھا اتنا خوب صورت بھالو بھی ہے۔ نرس نے کہا کہ سر یہ اس بھالو کو چھوڑ نہیں رہا ہے۔ تو سرجن نے کہا کہ نہیں نہیں یہ اس کے ساتھ ہی رہے گا۔ ابھی تو اس بھالو کی آنکھ کا آپریشن بھی ہونا ہے۔ یہ سن کر اس لڑکے کا دل خوشی سے معمور ہو گیا۔ جب اس لڑکے کا آپریشن جاری تھا تو ایک شخص کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ اس بھالو کی جو ایک آنکھ نہیں ہے اسے ابھی بازار سے لگوایا جاۓ۔ (یہ معمولی باتیں ہوتی ہیں لیکن ان کے اثرات دیر پا اور مستحکم اور گہرے ہوتے ہیں) ایک طرف اس بچے کا آپریشن ہوتا رہا تو دوسری طرف اس کے محبوب بھالو کی آنکھ ڈلوائی گئی اور بچے کے ہوش میں آنے سے پہلے اسے وہیں رکھ دیا گیا جہاں سے اٹھوایا تھا اور اس نئی آنکھ پر ایک خوب صورت پٹی بھی باندھ دی گئی۔ وہ اس خوب صورتی سے باندھی گئی تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی Living انسان کو بندھی ہوئی نہیں دیکھی۔ جب وہ بچہ ہوش میں آیا تو اس پٹی کو دیکھ کر کہنے لگا کہ اس بھالو کو کیا کیا ہے؟ اسے پٹی کیوں بندھی ہے؟

وہ سٹاف کہنے لگا کہ اس کی آنکھ کا آپریشن کیا ہے جو کامیاب ہوا ہے۔ اس پٹی کو دو دن نہیں کھولنا۔ وہ خوش خوش بھالو کو لے کر چلا گیا۔ اس سرجن کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آج بھی ہے۔ اس کا لمبا سا قد تھا اور اس کے اندر شفقت اور Greatness اور محبت و پیار ایسی بھری ہوئی تھی جو کہیں سے ملتی ہی نہیں ہے۔ مجھے اس تناظر میں اور بھی باتیں یاد آ رہی ہیں۔

ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک بڑا گول چکر ہے وہاں ایک بڈھا بابا ایک نیم کے پیڑ کے نیچے ٹھیلا لگاتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا ہوتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے۔ میری چھوٹی آپا ایک روز مجھے کہنے لگیں کہ میں ذرا اس ٹھیلے سے سبزی لے لوں۔ اس بڈھے بابے کے لڑکے نے آپا کو کچھ گوبھی، بینگن اور کچھ ٹماٹر بڑی احتیاط کے ساتھ دیۓ اور آپا کی پسند اور کہنے کے مطابق الگ الگ لفافوں میں ڈال کے وہ رکھتا رہا۔ اب وہ لڑکا آپا جی کے پرس کی جانب دیکھ رہا تھا کہ وہ اسے پیسے دیں گی۔ لیکن آپا ایک چکر کاٹ کے اس لڑکے کے باپ کی طرف چلی گئیں گو یہ ایک معمولی اور عام سی بات تھی لیکن لڑکے کے چہرے کے تاثرات کیا تھے یہ آپ بخوبی جان سکتے ہیں اور کوئی بھی صاحبِ دل جان سکتا ہے ۔کہ اس بچے کے دل پر کیا بیتی ہو گی کیونکہ جس نے سروس کی تھی اس پر بھی اعتماد کیا جانا چاہیے تھا۔ اس بات کا میرے دل پر بڑا بوجھ تھا لیکن میں اس لڑکے سے زیادتی کو Compensate کیسے کر سکتا تھا۔ ایک دن میں اپنی بڑی آپا کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا۔ یہ اس واقعہ سے تین چار ماہ بعد کی بات ہے۔ آپا نے اسی ٹھیلے کو دیکھ کر کہا کہ ” رکو اس ٹھیلے والے کے پاس تو کتنی اچھی سٹرابری اور شہتوت ہیں وہ لے لیتے ہیں۔ آپا نے ٹھیلے والے سے کہا کالے شہتوت ذرا کھٹے ہوتے ہیں، اس لڑکے نے کہا کہ نہیں جی یہ بہت میٹھے ہیں۔ وہ شہتوت بھی آپا نے لیے، آپا نے وہ ساری چیزیں پنے بہرے پن کے باوجود اچھے انداز میں لے لیں اور اسے پچاس روپے کا ایک نوٹ دیا اور ساتھ پوچھا کہ کتنے روپے ہوۓ۔ اس نے اونچی آواز میں چیخ کر کہا کہ اٹھارہ روپے اور کچھ پیسے ہوۓ ہیں اور بڑی آپا نے اس لڑکے کو ہی پیسے دے دیۓ کیونکہ اس نے ہی سروس کی تھی۔ اس لڑکے نے فٹا فٹ ٹھیلے پر سے رکھی بوری کا پہلوا اٹھایا اور بقایا ریزگاری نکال کر آپا کو دے دی۔ میں یہاں پھر دل کی اور دل میں پنہاں شفقت کے اس خانے کی بات کرتا ہوں جو خانہ کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے آپا اسے کہنے لگیں کاکا تو نے تو کمال کر دیا۔ فوراً حساب کر کے پیسے دیۓ مجھے تو کافی وقت لگ جاتا تو بڑے کمال کا بچہ ہے۔ یہ تو نے کہاں سے سیکھا تو اس نے کہا کہ جی ہمارا تو یہ روز کا کام ہے۔ ابا سے سیکھا ہے۔

خواتین و حضرات! بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو نصیب والوں کو ملتی ہیں ایسے لوگ اب جگہ جگہ مل جاتے ہیں لیکن ہماری مصروفیات کا یہ عالم ہے اور ہمارے اوپر بوجھ اتنے پڑ گۓ ہیں کہ ہم اگر چاہیں تب بھی اپنے دل کے اس پنہاں خانے اور دل کے بٹوے کو کھول کر اس میں جھانک نہیں سکتے لیکن اب وہ کھلتا نہیں ہے اور اب جب ہمارا تعلق شمالی علاقہ جات سے ٹوٹ چکا ہے اور ہماری کمپنی یا حلقۂ احباب کے بہت سے لوگ اس دنیا سے رحلت کر چکے ہیں اور اب ہم دو تین باقی رہ گۓ ہیں (یہ پروگرام اشفاق احمد کے انتقال کے کچھ سال پہلے ریکارڈ کیا گیا تھا) اور ہم بھی اکیلے اکیلے ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ باتیں یاد آتی ہیں اور چلاس بھی یاد آتا ہے۔ میں چلاس کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے لیے بڑی دعا کرتا ہوں۔ چلاس والوں نے ہمیں بڑی خوشیاں دی ہیں۔ بہت اچھے موسم عطا کیے ہیں۔ جب بھی اس علاقے سے گزرے اس نے بڑی محبتیں عطا کیں۔ اس رشتے سے چلتے ہوۓ، اس پیچھے آتے ہوۓ اور اس نیم کے درخت تک پہنچتے ہوۓ جہاں وہ بابا ٹھیلے والا اور اس کا بیٹا اب بھی ریڑھی لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ یقیناً اب وہاں شفقت کا مظاہرہ کرنے والے لوگ آتے ہوں گے لیکن دل میں کچھ خوف سا سمٹ کے آتا ہے کہ شاید اب ایسے لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرماۓ اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرماۓ۔ آمین۔ اللہ حافظ۔

0 comments:

Post a Comment