اکستان میں اقتصادی ماہرین نے حکومت پنجاب کی نئی یلو کیب سکیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس میں شفافیت نہ رکھی گئی تو یہ بھی ماضی کی طرح پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن منصوبہ ثابت ہوگا۔
پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے حال ہی میں پیلی ٹیکسی سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نوے کی دہائی میں بھی مسلم لیگ نون نے اپنی پہلے دور حکومت میں اسی طرح کا منصوبہ شروع کیا تھا جس سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا تھا۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ سکیم اچھی ہے لیکن سب سے پہلے حکومت یہ تحقیق کروائے کہ کس شہر میں کتنی ٹیکسیوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سکیم کی کامیابی تب ہی ممکن ہوگی جب حکومت میرٹ پر شفاف انداز میں مستحق افراد میں یہ گاڑیاں تقسیم کرے۔ ’اگر ماضی کی طرح سیاسی بنیاد پر گاڑیاں تقسیم ہوئیں تو مقصد پورا نہیں ہوگا۔‘
انہوں نے تجویز کیا کہ تمام بینک اس سکیم کو میرٹ پر فنڈ کریں اور قرضہ جاری کرنے کا کام صرف پنجاب بینک پر نہ چھوڑا جائے۔ ان کے مطابق اس سکیم کے لیے پنجاب حکومت جزوی طور پر گارنٹی فراہم کرے اور اگر کلی طور گارنٹی دی گئی تو صوبے کے لیے مشکل پیدا ہوسکتی ہے۔
اسلام آباد میں اعجاز مہر کے مطابق سابق وزیر خزانہ نے بتایا کہ ماضی میں سیاسی بنیاد پر جب پیلی ٹیکسی سکیم شروع ہوئی تو اس وقت قسطیں وصول کرنے کا بینکوں کو کوئی تجربہ تھا اور نہ لوگوں نے پیسے واپس کیے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ماضی میں اس سکیم میں ڈوبی ہوئی رقم کا حجم تو یاد نہیں لیکن انہیں اتنا یاد ہے کہ اندازاً چالیس فیصد تک سرمایہ ڈوب گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نصف آبادی والے صوبے پنجاب میں چھوٹی سوزوکی گاڑیاں بیس ہزار پڑھے لکھے بے روزگار افراد کو دینے کے لیے جو سکیم شروع کی جا رہی ہے وہ شفاف ہونی چاہیے۔
اقتصادی امور کے تجزیہ کار شاہد الرحمٰن کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ’بینظیر انکم سپورٹ سکیم‘ کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) ’پیلی ٹیکسی سکیم‘ متعارف کروا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں سکیمیں سیاسی نوعیت کی ہیں لیکن اچھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں پیلی ٹیکسی سکیم کی طرح اب بھی اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ پنجاب حکومت کی سکیم میں سیاسی بنیادوں پر گاڑیاں دی جائیں گی اور کافی بے قاعدگیاں بھی ہوسکتی ہیں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ وہ اس کے باوجود بھی پنجاب حکومت کی سکیم کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس میں پڑھے لکھے بے روزگاروں کو بنا گارنٹی کے بینک سے قرضہ ملے گا۔
’ماضی میں پنجاب بینک نے بڑے لوگوں کو بھاری قرضے دیے اور بینک کی مالی حالت خراب ہوئی۔ لیکن اب اگر بیس ہزار لوگوں کو پچاس ارب ملتے ہیں اور بینک ڈوبتا ہے تو بھی اس میں کوئی برائی نہیں۔‘
صحافی شاہد الرحمٰن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت روزانہ دو ارب روپے قرضہ لے رہی ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں خرچ ہوتا ہے اور ایسے میں اگر پچاس ارب روپے بیس ہزار پڑھے لکھے لوگوں میں تقسیم ہوں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
0 comments:
Post a Comment