شاعری بھی عجیب دھوکہ ہے
شاعری بھی عجیب دھوکہ ہے
اس کو مصرعہ کہا جو سوچا ہے
پھر بھی الفاظ میں بناوٹ ہے
صِدق جذبات میں ملاوٹ ہے
دِل کا سارا غُبار لکھ کر بھی
اُن کو دِلدار، یار لکھ کر بھی
سوچتی ہوں نہ کوئی پہنچانے
دِل کا اِک راز کوئی نہ جانے
میں نے لفظوں کا کھیل کھیلا ہے
ہجر کا دکھ اکیلے جھیلا ہے
تپتے صحرا کی راکھ پر چل کر
انکی یادوں میں رات دِن جل کر
خون دل سے سجائے ہیں مصرعے
تب کہیں اُن کو بھائے ہیں مصرعے
0 comments:
Post a Comment