بانسری - Flute

Written By Happy Prince on Wednesday 29 June 2011 | 00:18


ہمارے زمانے میں‌بڑی گھنگھور گھٹائیں گھٍر کر آیا کرتی تھیں اور چھما چھم بارشیں ہوا کرتی تھیں۔ اب بڑی دیر سے ہم ویسی بارشوں‌کے انتظار میں ‌ہیں اور آرزوئیں ‌لے کر بیٹھے رہتے ہیں‌لیکن ویسی بارشیں آتی نہیں ہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں اور ضروری نہیں کہ میرا محسوس کرنا درست ہو۔ لیکن میں‌محسوس کرتا ہوں کہ گھنگھور گھٹائیں بہت گھمبیر خیالات کے صورت میں اب ہمارے وجود سے باہر کی بجاۓ ہمارے وجود کے اندر سمانے لگی ہیں اور دماغوں‌ پر اثر انداز ہونے لگی ہیں۔ میں ‌یہ بات اس لۓ کر رہا تھا کہ ابھی پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہم نیگیٹیو اور پازیٹیو کی بات کر رہے تھے۔ آج کی جو نئی نسل ہے وہ بہت زیادہ پریشانی کے عالم میں‌ مبتلا ہے۔ ایک تو یہ بات ان کے چہروں سے عیاں ‌ہوتی ہے اور دوسرا ان کی پریشانی سنہری اور درخشاں مستقبل کی نوید اور امید نہ ہونے کی بدولت ہے۔ جب بچے پریشان ہوں تو ظاہر ہے کہ بڑے پریشان ضرور ہوتے ہیں۔ باوصف اس کے کہ بڑے اپنی بڑائی کی وجہ سے اور اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنا پر کچھ ایسے رویے اختیار کر چکے ہیں جن رویوں نے انہیں سکون عطا کر رکھا ہے لیکن وہ ان بچوں‌کی مدد نہیں کر سکتے جنہوں نے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ میں ان کے لۓ ڈیپریشن کا لفظ استعمال تو نہیں کرنا چاہتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے اندر Negativity کے بادل ایسے چھا گۓ ہیں کہ ان سے نکلنا ان کے لۓ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ جو بچے بچیاں مجھ سے ملتے ہیں تو ان کے خیالات ایسے تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ میں انہیں آپ کے سامنے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرنے لگوں تو شاید آپ پر بھی ویسا ہی بوجھ پڑ جاۓ جیسا ان کے والدین یا میرے جیسے آدمی پر ہے۔

Negativity کی عام مثالیں بالکل سیدھی سادی یہ ہیں کہ ایک بچہ جس نے بی کام کیا ہے اور وہ تازہ ترین کمپیوٹر کے علم سے بھی آشنا ہے لیکن گھمبیر خیالات نے انہیں ایسے گھیر رکھا ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ میں کامیاب ہونے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ سارے مسائل ہمارے گھرانے کے لۓ ہی ہیں۔ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ وہ اسی گھبراہٹ میں مبتلا رہتا ہے۔ جو معیشت کے ماہر ہیں وہ پروگرام بناتے رہتے ہیں کہ نوجوانوں کو زیادہ نوکریوں کی ضرورت ہے لیکن میں‌ عاجزی کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ معیشت کے ساتھ ہی ان کا حل وابستہ نہیں ہے۔ انہیں کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہے جو ہم بڑے انہیں نہیں دے رہے اور ان بچوں کے ذہنوں میں تکلیف دہ خیالات جنم لے رہے ہیں۔نوجوان اس مایوسی میں ہیں کہ میں نے امتحان تو دے دیا ہے لیکن کامیاب نہیں‌ہو سکوں گا۔ جو بال بچے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے بیٹی کی شادی تو کر دی ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ بسے گی نہیں اور لوٹ کے گھر آجاۓ گی اور اس طرح کے خیالات ہر وقت ان کے ذہن میں‌گھومتے رہتے ہیں۔ ایسے خیالات کو زندگی سے نکالا نہیں جا سکتا اور ان کا کوئی علاج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں‌کہ یہ غیر اختیاری رحجانات یا خیالات ہوتے ہیں اس لۓ آتے ہی رہیں گے اور ان پر ہمارا کوئی زور نہیں چلتا ہے لیکن انہی منفی تصورات کا ایک علاج ضرور نکالا جا سکتا ہے اے بچو بھلے آپ اپنے ذہنوں کے اندر ایسے منفی خیالات کو تو رہنے دیں لیکن اپنے اندر ایک ایسا رویہ ضرور اختیار کریں جو ان منفی خیالات کے ہونے کے باوصف آپ کو مثبت انداز اختیار کرنے پر راغب کرے۔ اس لۓ یہ ضروری ہے کہ آپ جب بھی بے شمار منفی خیالا ت میں گھریں اور آپ کو مستقبل تاریک نظر آۓ تو آپ جس مقام پر بھی ہوں وہاں سے باہر نکل کر کھلی جگہ پر آجائیں اور کھلی جگہ پر آکر دونوں پاؤں کے درمیان ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ کندھے پیچھے رکھتے ہوۓ سینہ آگے نکال کر اور ٹھوڑی اوپر اٹھا کر آنکھیں آسمان کے ساتھ ملا کر ایک بہت ہی گہرا سانس لیں (یہ ضروری ڈرل ہے جو خاص کر اس مقصد کے لۓ ہے) اور پھر اس گہرےسانس کو روک کر یہ کہیں کہ “میرا اللہ مجھے طاقت عطاکرتا ہے اور میں طاقتور ہوں“

بچو! یہ وہ مشق یا ڈرل ہے جو کی جانی چاہۓ جس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ جب آپ اس ڈرل میں داخل ہوں گے تو آپ کو طاقت آتی محسوس ہو گی۔ چینی لوگ اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ طاقت اللہ کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی ہے یہ کائنات کے اندر ہر جگہ موجود ہے جسے آپ ہاتھ پھیلا کر سمیٹ سکتے ہیں اور اپنے اندر داخل کر سکتے ہیں۔ ہمارا ہاتھ پھیلا کر دعا مانگنے کا طریقہ دیگر مذاہب سے یوں‌ مختلف ہے کہ چینی ایک مخصوص خدا کی طاقت کو جسے وہ “چی“ یا “کی“ بولتے ہیں معلوم نہیں کہ اس کا اصل تلفظ کیا ہے۔ اس طاقت کو سمیٹ کر چہرے پر ہاتھ مل کر حاصل کرتے ہیں اور دعا مانگ کر ہم بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اس قسم کی طاقت کو حاصل کرلیا ہے جو خدا نے ہمیں دی ہے اور آپ دعا مانگ کر ہاتھ چہرے پر پھیر کر اس طاقت کو Seal کر دیتے ہیں اور جو پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں وہ اس طاقت کو Seal کر کے اپنے وجود میں ڈال کر مضبوطی اور کامیابی کے ساتھ سیل کر دیتے ہیں۔ میں رویوں کی بات کر رہا تھا کہ اگر منفی خیالات اور تھکا دینے والے اور تکلیف دہ خیالات آپ کی جان نہیں چھوڑتے تو آپ اپنے رویے میں تبدیلی ضرور پیدا کریں۔ معلوم نہیں آپ نے گزشتہ دنوں ایک ڈچ جرنلسٹ کی شائع ہونے والی رپورٹ پڑھی ہے کہ نہیں۔ وہ کہتاہے کہ میں افغانستان میں تھا اور کہیں دور نکل گیا اور میں نے چھوٹی پہاڑیوں کے سلسلے میں بانسری کی بہت ہی خوبصورت آواز سنی اور میں مسحور ہو گیا۔ وہ آواز سن کر میرے قدم خود بخود اس جانب اٹھنے لگے۔ آگے جا کر میں نے دیکھا کہ پہاڑی کے اوپر ایک نوجوان چرواہا جو چھوٹی عمر کا تھا بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ میں نے قریب جا کر دیکھا کہ اس کے پاس سیاہ رنگ کی ایک ذرا سی لمبی بانسری تھی۔ میں اس کی زبان تو نہیں جانتا تھا۔ اشارے سے اسے بانسری دکھانے کو کہا تو اس نے وہ بانسری مجھے دکھائی اور یہ دیکھ کر میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہ بانسری جس کو وہ بجا رہا تھا اور میرے قدم خودبخود اس کی طرف اُٹھ رہے تھے وہ رائفل کی ایک نال تھی جس کو اس نے کاٹ کر ایک طرف سے بند کر رکھا تھا اور اس میں سے چھ سوراخ بناۓ ہوۓ تھے اور اس میں ایک ہوا دینے کا سوراخ تھا اور میں اسے دیکھ کر حیران و پریشان تھا کہ اگر اتنی بڑی منفی چیز جس نے کتنے ہی انسانوں کو مار ڈالا ہوگا اور اگر اس کا رویہ تبدیل کر کے اسے مثبت مقاصد کے لۓ استعمال کر دیا جاۓ تو وہ مدھر ساز والی بانسری بن جاتی ہے جو لوگوں کو موت یا خوف کے برعکس سکون اور اطمینان عطا کرتی ہے۔ اگر اسی طرح‌آپ منفی رویوں کو تبدیل کر نے کے لۓ پازیٹو اقدامات کرتے رہیں تو مایوسی کی فضا ختم ہو جاۓ گی۔ اگر ہم ایک نیا اور اچھا اندازٍ فکر اپنائیں تو ضرور بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ Negativity کو Positivity میں‌ بدلنا اندر کی آواز کی وجہ سے ممکن ہے۔ خیالات تو‌غیر اختیاری طور پر آتے ہیں لیکن رویہ اختیار ی طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بہت ہی زیادہ مایوس ہوجانے سے شیطان بہت ہی خوش ہو تا ہے اور جب بھی آپ منفی رویوں میں‌داخل ہوتے ہیں(خدا نہ کرے آپ اس بیماری میں داخل ہوں) تو پھر شیطان اس لۓ خوش ہوتا ہے کہ میں ‌نے بندے کو اللہ کی رحمت سے نکال لیا ہے۔

جس طرح اللہ تعالٰی نے فرما دیا ہے کہ (ترجمہ:) ‌اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو۔

لیکن آپ پر مایوسی آجانے سے شیطان انسان کو اللہ کے اس فرمان کے یقین سے باہر نکال لاتا ہے۔ شیطان انسان کو چوری چکاری، بے ایمانی اور گندی باتیں‌نہیں سکھاتا بلکہ وہ صرف اس بات پر مائل کرتا ہے اور ترغیب دیتا ہے کہ جس اللہ کو تو آج تک مانتا رہا ہے دیکھ اس نے تیرے ساتھ کیا کیا ہے۔ تو نے نوکری کے لۓ Apply کیا تھا لیکن تیرا کام نہیں ‌بنا۔ تو نے اتنے اچھے پرچے دۓ تھے لیکن تمھارے نمبر ہی کم آۓ ہیں۔ شیطان کے پاس بس یہ ایک ہی Trick ہوتا ہے۔ وہ جیسے جیسے یہ بات پکی کرتا جاتا ہے آپ اللہ کے دائرے سے نکلتے جاتے ہیں اور شیطان کی ڈی میں آجاتے ہیں تو پھر اسے گول کرنے بڑے آسان ہو جاتے ہیں۔ آپ مایوس ہونے کی بات Neutral ہو کے اس قسم کاکام کریں جیسا کہ اس چرواہے نہ بانسری بجا کر کیا تھا۔ رویے کو تبدیل کرنے اور اس پر حاوی ہونے کے لۓ اتنی کوشش نہیں کرنی پڑتی جتنی کہ آپ سمجھ رہے ہیں۔صرف تہیہ کرنے کی بات ہے۔ جب آپ تہیے کے کنڈے میں ہاتھ ڈال کر ایک دفعہ لٹک جاتے ہیں تو وہ کنڈا پھر آپ کو خود بخود اُٹھا لیتا ہے۔ آپ نے سرکس میں کرتب دکھانے والے دیکھے ہوں گے۔ ان کی بھی ہاتھ ڈالنے ہی کی مشق ہوتی ہے پھر ان کا بدن خودبخود ان کو گھماتا پھراتا رہتا ہے۔ ہمیں رویے تبدیل کرنے کی بڑی سخت ضرورت ہے۔ میں پہلے بھی آپ سے ایک علاقے کا بہت ذکر کرتا ہوں جو مجھے بہت پیارا ہے اور وہ تھر پارکر ریگستان کا علاقہ ہے۔ یہ عجیب و غریب علاقہ ہے۔ اس جگہ کئی مذاہب اور قوموں کے لوگ رہتے ہیں۔ راجپوت بھی ہیں، خانہ بدوش بھی۔ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ وہاں‌ہم نے ایک شخص کو دیکھا وہ لڑکا تو خیر نہیں تھا اس کے سر پر پگڑی تھی راجپوتوں جیسی لیکن کپڑے اس کے زیادہ اچھے نہیں تھے۔ اس کے ہاتھ میں ایک لمبی “سوٹی“ (چھڑی) تھی اور وہ کوبرا سانپ کو قابو کرتا تھا اور اس شخص میں‌ بلا کا اعتماد تھا۔ وہ ایک ہاتھ لہرا کر سانپ کو فن اور اعتماد کے جادو سے مست بھی کرتا تھا اور کبھی کبھی کوبرا خوفناک ہو کر اس پر حملہ بھی کرتا تھا۔ جب سانپ اس پر حملہ کرتا تو وہ اپنی سوٹی جس کے آگے اس نے بیکر (بیکر وہ چیز ہے جس سے ہم سائنس کی لیبارٹریوں میں تجربات کرتے ہیں اور میں جس علاقے کی بات کر رہا ہوں ‌وہاں کوبرا سانپ بڑی تعداد میں پاۓ جاتے ہیں) باندھا ہوا تھا۔ سانپ کے قریب کر دیتا تھا اورجونہی وہ سانپ کے قریب کرتا سانپ اس پر حملہ کر دیتا وہ شخص فوراّسانپ کی گردن دبوچ لیتا اور سانپ کے دانت اس شیشے کے برتن پر لگاۓ رکھتا اور سانپ کے منہ سے بالکل سفید رنگ کا زہر نکال لیتا اور ایک دم پھر وہ اس موذی جانور سے پیچھے ہٹ جاتا۔ میں ‌اور ممتاز مفتی یہ کھیل دیکھتے رہے۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تو اس زہر کا کیا کرتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ لیبارٹریوں والے اس سے وہ زہر خریدتے ہیں اور وہ ناگ کے اس زہر سے ادویات بناتے ہیں۔ وہ کہنے لگاکہ “سائیں ‌بابا میں‌ناگ چوتا(دوہتا) ہوں۔ یہ میرا پیشہ ہے۔“اس نے بتایا کہ تین گھنٹے کے بعد ناگ میں‌پھر زہر پیدا ہو جاتا ہے اور اس نے بتایا کہ ایک وقت کے سانپ کے زہر سے گھوڑے کو مارا جا سکتا ہے اور اس نے بتایا کہ وہ شام تک دو تین “چلیاں“(2 تولے کے برابر) بھر لیتا ہوں۔ دن بھر ناگ دوہتا ہوں اور شام کو اپنی بکری دوہتا ہوں اور میں ‌پھر اس بکری کے دودھ میں گڑ اور پتی ڈال کے پیتا ہوں۔

خواتین و حضرات! میں ‌رویے میں تبدیلی کی بات کر رہا تھا کہ اس نے ایک خوفناک چیز کو کس خوبی کے ساتھ ایک مثبت کام یا رویے میں تبدیل کر لیا تھا اور وہ اس سے گھبراتا نہیں تھا اور اس پر قائم تھا۔ جب میں فرسٹ ایئر میں ‌تھا تو میں امریکہ کی اس اندھی، گونگی اور بہری بچی ہیلن کے بارے میں ‌پڑھ کر حیران رہ گیا۔ اس کو قدرت نے کوئی صلاحیت نہیں دی۔ صرف ایک تودے کی مانند تھی۔ اس کے پاس صرف خوشبو اور لمس کو محسوس کرنے کی طاقت تھی۔ وہ اپنی خودنوشت میں لکھتی ہے کہ میں نے خود کو زندوں میں‌شامل کرنے کا ارادہ بنایا اور جو منفی چیزیں مجھ پر وارد کر دی گئی ہیں میں ‌انہیں مثبت میں تبدیل کروں گی لیکن خواتین و حضرات وہ اس طرح‌ نہیں گھبرائی پھرتی تھی جس طرح ہمارے بچے ایم۔بی۔اے کرنے کے بعد گھبراۓ پھرتے ہیں اور چادر تان کے لیٹ جاتے ہیں۔ اس لڑکی نے اپنی ایک سہیلی کو بتایا کہ جب میں تمھارا ہاتھ اس طرح دباؤں تو اس کا مطلب مثال کے طور پر “اے“ ہوگا۔ دوسری طرح دباؤں تو اس کا مطلب “بی“ ہوگا۔ اس نے اپنی بات کو سمجھانے کے لۓ اپنی دوست کو خود اشارے بتاۓ اور اس طرح اس نے ایک نئی زبان کو جنم دیا۔ وہ اپنی سہیلی کا ہاتھ دباتی جاتی تھی اور اس کی سہیلی اس کی باتوں کو سمجھتی جاتی تھی اور لکھ لیتی تھی۔ وہ اپنی خود نوشت میں کہتی ہے کہ میں اللہ کی بڑی شکر گزار ہوں اور میں ہر وقت اس کا شکر ادا کرتی رہتی ہوں کہ اس نے مجھے دنیا کی ان نعمتوں سے محروم رکھا جو ساری کائنات کے لوگوں کو ملتی ہیں۔ اگر مجھ میں یہ خامیاں ‌نہ ہوتیں تو میں اتنی نامور رائٹر نہ ہوتی اور میں‌ایک عام امریکی عورت کی طرح ‌چولہے چونٹھے پر کام کرتی فوت ہو گئی ہوتی لیکن میری ساری خامیاں میرا بہت بڑا سہارا بن گئی ہیں۔ وہ پاکستان بننے کے دوسرے تیسرے سال لاہور آئیں۔ میری بھی ان سے ملنے کی بڑی خواہش تھی۔ خدا کا شکر کہ میری اس سے ملاقات ہوئی اور وہ اپنی اس دوست کے ذریعے سے ہم سے سوال جواب کرتی رہی اور میرے Funny قسم کے سوالات پر وہ بے قاعدہ ہنستی بھی تھی اور ہمارے سوالوں کا کھٹاکھٹ جواب دیتی۔ وہ اپنی خامیوں پر فخر کرتی۔ میں بھی اپنے پیارے بچوں کو مایوس نہیں دیکھنا چاہتا۔ اگر میرے بچے اپنے خیالات کو مثبت انداز میں ڈھالیں‌اور خودکشی کرنے اور قتل کرنے والی رائفل کو بانسری میں‌تبدیل کردیں تو وہ بہت سی مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ ان کی یہ گھبراہٹ بہت زیادہ انفارمیشن ملنے کی وجہ سے ہے اور وہ اپنے بارے میں بہت کم جانتے ہیں جس طرح‌کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے اللہ کو پہچان لیا۔ اس لۓ خود کی پہچان کرنا بہت ضروری ہے۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرماۓ اور آسانیاں‌ تقسیم کرنے کا شرف عطا فرماۓ۔ اللہ حافظ

بشکریہ: اردو لائبریری
ٹائپنگ: قیصرانی
پروف ریڈنگ: جویریہ مسعود

0 comments:

Post a Comment