ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سنہ انیس سو اسی کے بعد سے دنیا میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد دوگنی سے بھی زائد ہو گئی ہے۔
یہ تحقیق لندن کے امپیریل کالج اور امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر کی ہے۔
اس تحقیق کے دوران دنیا بھر سے ستائیس لاکھ افراد کے اعداد و شمار حاصل کیے گئے اور بعد میں ان معلومات کی روشنی میں دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا۔
تحقیق کے مطابق بالغ افراد میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد پندرہ کروڑ تیس لاکھ سے بڑھ کر چونتیس کروڑ ستر لاکھ ہو گئی ہے اور یہ اضافہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق عمومی طور پر دنیا کے ہر ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد بڑھی ہے یہاں پہلے کی سطح پر رہی ہے۔
تحقیق کاروں نے اضافے کو روکنے کے لیے مرض کی بہتر تشخیص اور علاج کا مطالبہ کیا ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ بحر الکاہل کے جزائر اور مارشل جزائر میں ہوا ہے اور مارشل جزائر میں ہر تیسری خاتون کو یہ مرض لاحق ہے۔
تحقیق میں شامل امپیریل کالج کے ماجد عزاتی کا کہنا ہے کہ ’ تقریباً دنیا میں ہر جگہ ذیابیطس کا مرض عام ہوتا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ’ جب تک ہم لوگوں میں بلڈ شوگر یا ذیابیطس کی جانچ اور ان کو اپنا وزن کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرنے کا ایک بہتر پروگرام شروع نہیں کرتے ہیں اس وقت تک ذیابیطس کا مرض دنیا بھر کے نظام صحت پر ایک بھاری کم بوجھ بنتا جائے گا۔‘
ذیابیطس کے مرض سے خون میں شوگر کے کنٹرول کا نظام ناقص یا کمزور ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے گردے متاثر ہوتے ہیں اور بینائی کھو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ دل کے امراض اور فالج ہو سکتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں امریکہ میں ذیابیطس کے مرض میں اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ مغربی یورپ میں یہ مرض قدرے کم ہے۔
صحت عامۂ سے متعلق ایک ادارے آئی ایم ایس ہیلتھ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں سالانہ ذیابیطس کے حوالے سے ادویات پر بائیس ارب برطانوی پونڈ خرچ کیے جا رہے ہیں جب کہ سال دو ہزار پندرہ تک یہ رقم بڑھ کر تیس ارب پونڈ ہو سکتی ہے۔
ادویات تیار کرنے والے ایک ادارے سانوفی کے ڈینس اوربنیک کا کہنا ہے کہ’ یہ ایک دائمی اور بڑھتی ہوئی صورتحال ہے، اس میں زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ لوگوں کی ایک ایسی بڑی تعداد موجود ہے جنھیں ذیابیطس ہے اور جس کوغیر معمولی حالات میں قابو بھی نہیں سکتا ہے۔‘
0 comments:
Post a Comment