جیرا بلیڈ، ڈاکیا اور علم

Written By Happy Prince on Tuesday 26 July 2011 | 09:51


اس پروگرام کے شروع ہونے سے ذرا پہلے میں ایک نیا کیلنڈر دیکھ رہا تھا جس کے اوپر ایک بڑے شیر کی تصویر تھی اور وہ شیر ایسا خوفناک تھا جو میں نے یا آپ نے کبھی چڑیا گھر میں اپنی نظر سے نہیں دیکھا۔ اس کے نوکیلے دانت خنجر کی طرح ہوتے ہیں اور اس کا چہرہ بہت ہی خوفناک ہوتا ہے۔ یہ شیر اب تو نایاب ہے۔ یہ ڈائنوسار کے زمانے میں ہوا کرتا تھا اور اپنے آس پاس، ارد گرد جانورں کو اٹھا کر خوراک کے لیے لے جاتا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ جانور کس طرح سے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور پھر کس طرح سے ہمارے اوپر حاوی بھی ہوتا رہا ہے اور کن کن خصوصیات کی بنا پر یہ انسان سے بہتر ہے۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ماضی، حال اور مستقبل کا جانور یہ انسانوں سے یوں بہتر ہے کہ اس میں دیکھنے کی صلاحیت ہم آپ سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔

اس کی بصارت بڑی تیز ہوتی ہے۔ آپ ایک گوشت کا چھوٹا سا ٹکڑا یا بوٹی زمین پر رکھ دیں تو میل بھر اونچی اڑتی ہوئی چیل فوراً جھپٹا مار کر اس بوٹی کو اچک لے گی لیکن وہ مجھے یا آپ کو نظر نہیں آ سکتی ہے۔ کبھی آپ صبح اٹھ کر چڑیوں کو دانہ ڈالیں تو دور اڑتی ہوئی چڑیاں بڑی جلدی ان دانوں کو دیکھ لیتی ہیں اور جانوروں میں شکرا تو دیکھنے کی بہت زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح سے سننے کی قوت چمگادڑ میں بہت زیادہ ہے۔ بہت ساری آوازیں ایسی ہوتی ہیں جو یہاں موجود ہیں لیکن ہمارے کان ان کو نہیں سن سکتے لیکن چمگادڑ انہیں سن سکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اندھی چمگادڑ رات کے اندھیرے میں اڑتے ہوئےۓ Sound کو سنتی ہے۔ اسی طرح سے سونگھنے کی طاقت کتوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ بند ٹرنک کے اندر پلاسٹک کے لفافوں میں بڑی مہارت سے بند کی ہوئی ہیروئن کو بھی سونگھ لیتے ہیں۔ آپ نے چور پکڑنے والے سونگھے کتوں کے بارے میں بھی سنا ہو گا۔ وہ ایک پاؤں کا نشان سونگھ کر اصل آدمی کو پہچان لیتے ہیں۔

جانوروں کی ان غیر معمولی صلاحیتوں کے باوصف انسان کی برتری اپنی جگہ قائم ہے۔ خونخوار شیر اور بھاری بھر کم ہاتھی انسانی صلاحیتوں کو نہیں پا سکتا ہے۔ اللہ کی طرف سے جو ہمیں عقل سلیم عطا کی گئی ہے ہم اس پر اللہ کے شکر گزار ہیں۔ میں شیر کی تصویر دیکھ کر سوچنے لگا کہ ہڑپہ یا انڈس ویلی کے پاس یقیناً پرانے زمانے میں بڑے بڑے جھاڑ اور جنگل ہوتے ہوں گے جن میں بڑے بڑے شیر رہتے ہوں گے تو غار میں رہنے والے “ گجو “ نے اپنے کسی دوست “ بینڈی “ سے ضرور کہا ہو گا کہ یار یہ شیر بہت تنگ کرتا ہے اس اور اس علاقے کے جتنے بھی ہرن ہیں اس نے ختم کر دیئےۓ ہیں۔ ہم اس کا کیا سدِ باب کریں۔ پھر بینڈی نے کہا ہو گا کہ تم مجھ سے یہ اپنا کیا دکھ بیان کر رہے ہو میں خود پریشان ہوں کیونکہ میری بیوی نے مجھے پکڑ کے دو چماٹے مارے ہیں اور غار سے یہ کہہ کر نکال دیا ہے کہ بچے بھوکے مر رہے ہیں تم ہر روز ایک چھوٹا سے سا خرگوش مار کر لے آتے ہو اور میرے اٹھارہ بچے ہیں تم کوئی بڑا شکار کر کے لاؤ (اس زمانے میں یقیناً فیملی پلاننگ کا کوئی تصور نہیں ہوتا ہو گا نا) اور اس نے کہا کہ میں تو رات بھر گھر سے باہر ہی سویا ہوں۔ اس وقت گجو نے بینڈی سے کہا ہو گا کہ دریا کنارے جہاں یہ شیر پانی پینے آتا ہے وہاں ایک بہت بڑا گڑھا ہے اور اگر ہم شیر کر کو پھانسنے کے لیے اس گڑھے کے اندر گوشت کا کوئی ٹکڑا یا ران وغیرہ رکھ دیں تو شیر یقیناً اسے پانے کے لیے چھلانگ لگائےۓ گا تو بینڈی نے کہا کہ وہ بڑا جانور ہے۔ چھلانگ مار کر گوشت لے لے گا اور طاقت سے باہر نکل آئےۓ گا۔ اس کا کوئی اور حل ڈھونڈنا چاہیے۔ انہون انہوں نے کہا کہ ہم بانس کا ایک مضبوط اور نوکیلا سرکنڈہ لیتے ہیں اور اسے گڑھے کے درمیان میں کھڑا کرتے ہیں جب یہ شیر چھلانگ لگائےۓ گا تو یہ بانس اس کے پیٹ میں دھنس جائےۓ گا۔ اس منصوبے پر اتفاق ہوا اور دونوں نے ایک بانس گاڑ دیا اور گوشت رکھ دیا۔ شیر کو گوشت کی خوشبو آئی اور اس نے چھلانگ ماری تو وہ بانس اس کے پیٹ کے آرپار ہو گیا اور شیر کے مرنے کی خوشی میں انہوں نے وہاں لوک گیت بھی گائےۓ ہوں گے کہ شکر ہے یہ بلا ٹلی۔ اب ان دونوں کے درمیان ایک اور بات طے ہوئی کہ یہ جو فعل ہم نے کیا ہے اور یہ ہمارے ذہن کا کمال ہے اور اب اس ذہنی استراح کو آگے پھیلنا چاہیے اور لوگوں کو پتہ لگنا چاہیے کہ یوں بھی ہو سکتا ہے چنانچہ انہوں نے کسی پرانے چیتھڑے پر مٹکے یا

گھڑے پر بجھے ہوئےۓ کوئلے کے ساتھ ایک ڈیزائن سا تیار کیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ اگر ایسا دائرہ بنے جس کے درمیان ایک بانس یا کوئی نوکیلی چیز گاڑ دی جائےۓ تو اس طرح سے دشمن کو زیر کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان کا مقصد اپنے دیگر ساتھیوں کو ایسے ظالم اور خونخوار جانوروں سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ جب انہوں نے اس طرح ڈیزائن بنایا تو انہیں خدا کی طرف سے کچھ لکھنے کا احساس ہوا۔ جب انہیں لکھنا آ گیا تو انہوں نے پتھر کی ٹھیکریاں استعمال کیں۔ اس طرح انسان کو جو سب سے بڑی نعمت میسر آئی وہ لکھنے کی تھی اور تیسری سب سے بڑی خوبی جو ہم میں اس دونوں صلاحیتوں کے امتزاج سے ملی وہ یہ تھی کہ ہم اپنے ذہن کے اندر ایک مشکل خیال پیدا بھی کر سکیں اور اس پیچیدہ خیال کو مزید گانٹھیں بھی دے سکتے ہیں اور یہ خیال کہ شیر یا ہاتھی کے ذہن میں پیدا کبھی نہیں ہوا۔ ہم میں چوتھی صلاحیت یہ پیدا ہوئی کہ ہمارے ذہن کا پیچیدہ خیال جب کسی دوسرے تک منتقل ہوتا ہے تو وہ بھی اسے سمجھ لیتا ہے۔ جب غالب کہتا ہے کہ :
گر تیرے دل میں ہو خیال وصـل مـیں شـوق کا زوال
یا وہ کہتا ہے کہ
:
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب شــرم تــم کــو مـگـر نہــیں آتــی
جب میں سوچتا ہوں کہ یہ باتیں غالب کے ذہن میں کیسے آئیں اور جب اس سے ہو کر ہم تک پہنچیں تو ہم نے بھی فوراً یہ سمجھ لیا کہ غالب کیا کہنا چاہ رہا ہے۔

اقبال کا ایک شعر میری سمجھ میں آ جاتا ہے۔ شیکسپیئر کا کوئی قول ہوتا ہے تو وہ بھی سمجھ جاتا ہوں اور میں اس ڈرامہ “ ہیملٹ “ (Hamlet) میں To Be Or Not To Be کو بھی جاننے لگا ہوں جیسا کہ یہ بات مصنف کے ذہن میں پیدا ہوئی تھی۔ ہم نے ان نعمتوں پر کبھی غور نہیں کیا۔ آج کیلنڈر کی مہربانی سے مجھے خیال آیا اور یہ باتیں میرے ذہن میں آئیں لیکن جب ہم پڑھنا لکھنا سیکھ گئےۓ اور علم ہمارے تصرف میں آنے لگا تو پھر اس کے ساتھ ایک خدشہ بھی پیدا ہو گیا کہ یہی Tool اور ہتھیار منفی انداز میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب بھی دعا مانگتے تھے یہی فرماتے کہ “ اے اللہ مجھے علمِ نافع عطا فرما۔
وہ انسانیت کو فائدہ پہنچانے کا علم مانگتے۔ وہ نقصان دینے والے علم سے پناہ مانگتے۔ ہم سائنس کی ترقی کی بڑی بات کرتے ہیں اور اس علم کے فوائد کا ذکر جابجا کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے بہت نقصان بھی ہیں۔ سائنس کی بدولت ڈیزی کٹر اور ایٹم بم بنا کر انسانوں کی وسیع پیمانے پر ہلاکت کا سامان کیا گیا ہے۔ ہم سب کو بار بار سوچ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علمِ نافع کی طرف جائیں۔ اس کی ہی آرزو کریں۔ آپ دیکھیں کہ تالا توڑنے کا بھی تو ایک علم ہی ہے اور جیب کاٹنا بھی ایک علم ہے۔ میرا ایک دوست اوکاڑہ میں رہتا ہے۔ اس کے چھوٹے بھائی نے ایف-۔۔اے کیا تو میں نے اس سے کہا کہ اسے بی-۔۔اے میں داخل کروانے کے لیے یہاں بھیج دو لیکن اس نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ میں بی-۔۔اے میں داخلہ نہیں لینا چاہتا۔ آپ کے دوست اشفاق صاحب ہیں ان کا بڑے لوگوں سے ملنا جلنا ہے۔ آپ مجھے بس جیب کترے کا علم سکھا دیجیئےۓ میں آگے پڑھ کر کیا کروں گا۔ اب میں سمجھا کہ وہ مذاق کرتا ہے لیکن اس نے مجھے فون کر کے بھی یہی کہا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اسے میرے پاس بھیجو۔ ان اس نے میرے پاس آ کر کہا کہ بھائی جان بی-۔اے کا ایک علم ہے تو جیب کاٹنا بھی تو ایک علم ہی ہے نا۔ میرے ایک تھانیدار دوست لٹن روڈ تھانے میں تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ یار اس لڑکے کا کچھ کرو۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ایک پرانا بابا ہے اس سے پوچھتے ہیں۔ اس بابے نے کہا کہ میں پانچ سو روپیہ لوں گا اور باقاعدہ اسے شاگردی اختیار کرنی پڑے گی۔ ایک پگڑی اور سیر لڈو پہلے دن بطور شاگرد اسے لانا ہوں گے۔ پھر کام سکھانا شروع کریں گے۔ انشاء اللہ یہ نو ماہ، سال میں “ جیرا بلیڈ “ ہو جائےۓ گا۔ مجھے یہ سن کر بڑی حیرت اور عبرت ہوئی کہ سکھانے والے بھی موجود ہیں اور سیکھنے والے بھی۔

یہ ایک چھوٹی سطح ہے، بڑے لیول پر بھی یہ کام ہو رہا ہے۔ جسے آپ مافیا کہتے ہیں۔ بڑے بڑے اور نیک نام ملکوں میں نقصان دہ علم کے فروغ کا اور اس کے استعمال کا کام ہو رہا ہے۔ ہمارے اوپر Terrorism کا الزام دھرا جاتا ہے لیکن ان کے اپنے ہاں بھی عجیب طرح کی دہشت گردی کا چلن موجود ہے۔ اس سے ایک خوف ضرور پھیل رہا ہے۔ مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے۔ میرے والد صاحب ڈاکٹری پڑھنے کے لیے لاہور آئےۓ۔ وہ 93-۔1890ء کی بات ہو گی۔ ابا جی بتاتے ہیں وہ اپنی والدہ کو کارڈز لکھتے تھے کہ میں یہاں بخریت ہوں اور پڑھائی وغیرہ بھی ٹھیک جا رہی ہے۔ میری دادی ان پڑھ تھیں۔ خط یا کارڈ لانے والے ڈاکیا ہی اماں کو وہ خط وغیرہ پڑھ کر سنا دیا کرتا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میرے والد کے خط میری دادی کو نہیں ملتے رہے تو وہ ابا جی بڑے پریشان ہوئےۓ کہ خط کیوں نہیں مل رہے تو انہوں نے کارڈ میں لکھا کہ “ اماں اس مرتبہ آپ ڈاکیے کو تنبیہ ہ کر دیجیے کہ اگر اس نے خط پہنچانے مین کوتاہی کی تو میں اس کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آؤں گا اور میں اس کی شکایت کروں گا۔ اب وہ ڈاکیا کارڈ یا خط لے کر آیا تو ظاہر ہے کہ اسے اس ڈاکیے نے ہی پڑھنا تھا اور وہ خط کو پڑھنے لگا لیکن جب وہ اس مقام پر پہنچا تو تو تھوڑا رکا اور پھر وہ پڑھنے لگا کہ امی جی ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ “ اس ڈاکیے کو تنبی (چادر) دیجیے تا کہ یہ آپ کا شکر گزار ہو“ میری دادی نے کہا کہ “ میں اک دی بجائےۓ دو تنبیاں لے دینی آں“ اور انہوں نے مشہور قسم کا لٹھا لے کر دو اعلٰی درجے کی شلواریں سلوا کر اس ڈاکیے کو دے دیں۔ اب آپ دیکھئےۓ کہ اس ڈاکیے نے “ تنبیہ “ کو کس طرح ‘ تنبی ‘ میں بدل ڈالا۔ دادی بتاتی تھیں کہ پھر اس کے بعد انہیں وقت پر خط ملتے رہے۔ اسی طرح لکھنے کے معاملے میں بھی تاریخ بھری پڑی ہے جس میں گروہ گروۂ انسانی سے کوتاہیاں ہوتی رہیں اور ان کی تحریروں سے لوگوں کو نقصان پہنچتا رہا ہے لیکن جہاں کوتاہیاں ہوئیں وہاں لکھنے سے فائدے بھی ہوئےۓ ہیں اور علم نے ہی

انسان کو ساری منازل طے کرا کے یہاں تک پہنچایا ہے لیکن میرے اندازے کے مطابق اب علم، تعلیم Learning کا قافلہ اس وقت تک آگے نہیں چل سکتا جب تک اس کے ساتھ تربیت نہ ہو۔ تربیت کے لیے روح کی بالیدگی کی بڑی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی بابت بابوں سے پوچھنا چاہیے جو ان منازل سے گزرتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے اور ہم اپنی روح کو وہ سربلندی کس طرح سے عطا کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی نظر میں ہی محترم ٹھہریں۔ ہماری سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ہم اپنی نظر میں محترم نہیں ہیں۔ جو شخص اپنی نظر میں محترم ٹھہر گیا وہ باعزت اور باوقار ہو گیا۔ اس کو توقیرِ ذات ملنے لگی لیکن یونیورسٹیوں، مکتبوں اور دانش کدوں میں یہ تعلیم نہیں ملتی۔ اس کے لیے کھوج کرنی پڑتی ہے اور اس کے لیے اپنے آپ کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا اور اپنے آپ کو Face کرنا پڑے گا۔ پھر آپ میں وہ آسانیاں نکلنے لگیں گی جن کی ہم کو خواہش ہے۔ وگرنہ انسان تمباکو کی بل دی ہوئی گٹی یا “ کھبڑ" “ کی طرح ہی رہے گا۔ جس سے اپنے ہی خم نہیں کھولے جاتے۔ میں جب اٹلی میں تھا تو میں اس وقت چھبیس برس کا نوجوان تھا۔ وہاں میرا ایک دوست اور ہم عصر ڈاکٹر بالدی بھی تھا۔ اس کے گھر میں اس کی ماں اور والد کی شادی کو کی سالگرہ کی تقریب تھی۔ ہم نے وہاں کیک ویک اور چائےۓ کافی سے لطف اٹھایا لیکن اس کھانے پینے سے پہلے ڈاکٹر بالدی کے باپ نے کہا کہ دیکھو بھئی آج ایک اچھا دن ہے میں اپنی بیوی سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر زندگی میں کوئی ایسی کوتاہیاں کی ہیں جس کا مجھے علم نہ ہو اور یہ انہیں جانتی ہو تو مجھے یہ بتائےۓ اور میں اس حوالے سے ڈائریکٹ کمیونی کیشن چاہوں گا۔ وہ کہنے لگا کہ میرے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں

وہ میں کہوں گا۔ ہم نے ان دونوں کو کاغذ دیا کہ وہ اگر کوئی ایسی بات ہوئی ہے تو لکھیں۔ دونوں نے جب لکھ لیا تو ہم نے ان سے کاغذ لے لیے۔ بالدی کی ماں نے لکھا کہ ایک بار ہم نے تھیٹر جانا تھا اور بالدی کے ابو نے کسی سرکاری کام کی وجہ سے تھیٹر جانے سے معذرت کی حالانکہ میرا اندازہ یہ ہے کہ اسے کوئی کام نہیں تھا۔ اس نے لکھا کہ یہ آج سے بتیس برس پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت نوجوان تھی لیکن میرے شوہر نے جانے سے انکار کر دیا جس کا آج تک میرے دل پر بوجھ ہے۔ پھر بالدی کی ماں آئی اس نے کہا کہ وہ ہمارے ہاں بارہ دن ٹھہرے گی لیکن وہ تیرہ دن رہی (خواتین و حضرات ساس تو ویسے ہی بری لگتی ہے اور دنیا میں آج تک کوئی خوبصورت ساس نہیں بنی ہے) اس کے بعد بالدی کے اباجی کی تحریر تھی۔ جس میں سب سے پہلے انہوں نے لکھا ہوا تھا I Love You۔ دوسرے کاغذ پر بھی I Love You اور پھر تمام کاغذوں پر یہی فقرہ درج تھا۔

بچو لکھنے کا ایک انداز ہوتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ڈاکیے کی طرح تقریر میں بالدی کے ابو کی طرح تحریر میں لکھت اور پڑھت میں ہم ایسا کریں کہ اس سے دوسرے کو سکون اور نفع عطا کرئےے۔ اگر علم جیرا بلیڈ بننے والا ہے تو ہمارے کسی علم یا پڑھنے لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور ہم جانوروں سے بھی بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ چڑیا بلبل گاتے ہونے مر جاتے ہیں۔ ہم ایسے نہیں کر سکتے۔ ہمیں ہر وقت کوئی نہ کوئی دھڑکہ ہی لگا رہتا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں بھی خوش رہنے کی صلاحیت عطا فرمائےۓ اور ہم ایسے ہو جائیں کہ ہم خدا کے ہر حکم کو خوشی خوشی بجا لائیں اور اپنے Creator کے حکم زندگی گزاریں۔
میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائےۓ اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائےۓ۔ آمین اللہ حافظ ۔






0 comments:

Post a Comment