علامہ اقبال کے بعد فیض کی باری

Written By Happy Prince on Sunday 29 May 2011 | 11:11



پاکستان اکادمی ادبیات کے سربراہ اور اور پنجابی کے ممتاز ادیب فخر زمان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح اقبال کو تباہ کیا ہے اور ان کا شعری تشخص مجروح کر کے ان کا انقلابی حصہ ہی دبا دیا ہے اسی طرح اب وہ فیض احمد فیض کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت نے اس سال کو فیض صاحب کا سال قرار دیا ہے۔

وہ کراچی کی یونین کلب لمیٹڈ کی جانب سے فیض احمد فیض صد سالہ جشن کے حوالے سے ہونے والی تقریب ’فیض کی باتیں کریں‘ سے خطاب کر رہے تھے۔

تقریب سے ان کے علاوہ مبینہ پنڈی سازش کیس کے ملزم اور جیل میں فیض احمد فیض کے رفیق ظفر اللہ پوشنی، سابق بیورو کریٹ اور گورنر سندھ کے مشیر یوسف جمال، آوازوں کی لائبریری کے حوالے سے معروف لطف اللہ خان، آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ اور شاعرہ، ادیبہ اور محقق ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بھی خطاب کیا۔

فخر زمان کا کہنا تھا کہ فیض رومانی شاعر تھے ہی نہیں بلکہ وہ ایسے انقلابی شاعر ہیں جیسے چلی کے پابلو نیرودا اور ترکی کے ناظم حکمت یا رسول حمزہ توف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فیض کو پرائمری سے اعلیٰ سطح تک نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔


فخر زمان سے قبل ظفر اللہ پوشنی نے بتایا کہ راولپنڈی سازش کیس ہماری گرفتاری بعد میں ہوئی ہم سے پہلے فیض صاحب گرفتار ہو چکے تھے اور انھیں پنجاب کی جیلوں میں رکھا جا رہا تھا لیکن جب ہمیں گرفتاری کے بعد حیدرآباد پہنچایا گیا اور ہم سٹیشن کے باہر پولیس کی وین میں بیٹھے تھے تو ہم نے دیکھا کہ سفید کرتے پائجامے میں ملبوس ایک شخص کو لایا جا رہا ہے۔ یہ شخص فیض صاحب تھے۔

جب انھیں گاڑی میں بٹھا دیا گیا تو ہم نے ان سے حال پوچھا تو انھوں اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا ’ٹھیک ہیں‘۔ ان کے اس انداز کو دیکھ کر ہم بھی چپ ہو گئے۔ لیکن جب جیل پہنچے اور ہم سب کو ایک بیرک ہی میں رکھا گیا تو فیض کا چہرہ اچانک دمکنے لگا اور باتیں کرنے لگے۔

اس پر ہم نے ان سے سبب پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں گرفتاری کے بعد سے مسلسل قیدِ تنہائی میں رکھا گیا اور انھیں اندیشہ تھا کہ یہاں بھی قیدِ تنہائی میں رکھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قیدِ تنہائی سے زیادہ ہولناک کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔


ظفر اللہ پوشنی سے قبل یوسف جمال نے بتایا کہ ایک بار منٹو صاحب کا ذکر نکل آیا تو ہم نے فیض صاحب سے پوچھا کہ کیا ان کی منٹو صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ جب منٹو کے افسانوں پر فحاشی کے مقدمات بنے تو وہ ہمارے پاس آئے تھے اور انھوں نے ہم سے کہا کہ ہم عدالت میں یہ صفائی پیش کریں کہ ان کے افسانے فحش نہیں ہیں۔ ہم نے ان سے کہا ضرور، ہم عدالت میں ثابت کریں گے کہ آپ کے افسانے فحش نہیں ہیں اور ہم نے ایسا کیا بھی، جس کے نتیجے میں وہ چار مقدموں میں بری ہو گئے لیکن پانچویں افسانے کا معاملہ ابھی باقی تھا کہ حکومت نے ہمیں ہی جیل بھیج دیا لہذا اس افسانے کے مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا۔


یوسف جمال سے قبل لطف اللہ خان جن کے پاس فیض احمد فیض کی تمام شاعری خود ان کی آواز میں محفوظ ہے، بتایا کہ اس میں وہ شاعری بھی ہے جو ابھی شائع نہیں ہوئی۔


انھوں نے بتایا کہ ’جب شاعری کی ریکارڈنگ تقریباً ختم ہو گئی تو میں نے ان سے کہا کہ کچھ ذاتی گفتگو بھی ہو جائے تو ان کا جواب تھا: جی! ہم ذاتی گفتگو نہیں کرتے‘۔

لطف اللہ خان سے قبل کراچی آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے کہا کہ انھیں قاری ہونے کے علاوہ فیض صاحب سے کراچی آرٹس کونسل کی نسبت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوں تو پاکستان کے میں ثقافتی اداروں کی داغ بیل انھی کی مشاورت کے نتیجے میں پڑی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ فیض صاحب کراچی آرٹس کونسل کے منتظم بھی رہے۔

احمد شاہ سے قبل ڈاکٹر فاطمہ حسن نے فیض احمد فیض کے ہاں تنہائی کا تصور پر لکھے گئے مقالے کے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیض احمد فیض تنہائی پر رنج کا اظہار نہیں کرتے بلکہ وہ تنہائی کی سبیل کی بات کرتے ہیں اور جب تنہائی میسر آتی ہے تو اسے ایک طاقت میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

0 comments:

Post a Comment